146

کیریئر کونسلنگ کیوں ضروری ہے؟

کیریئر کونسلنگ کیوں ضروری ہے؟

ہم سے اکثر لوگوں کو اس بات کا اتفاق ہوا ہوگا کہ ایک شخص کی تعلیمی قابلیت کچھ اور ہے لیکن وہ کام کسی مختلف شعبہ میں کررہا ہے۔ صر ف یہی نہیں، اگر آپ ایسے کسی نوجوان یا شخص سے بات کریں تو آپ معلوم ہوگا کہ اس نوجوان نے سوچا کچھ اور تھا، وہ کر تا کچھ اور ہے اور آخر میں اس کے ساتھ ہو کچھ اور جاتا ہے۔ ہمارے اعلیٰ تعلیمی نظام میں کئی مسائل ہیں اور ایسے ہی ایک اور مسئلے کی نشاندہی حال ہی میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین نے بھی کی ہے۔

اس مسئلے کا ایک حل کیریئر کونسلنگ فراہم کرتی ہے۔ ’کیریئر‘ انگریزی زبان کا لفظ ہے اور اس کے کئی معنی ہیں۔ اس کاایک مناسب ترجمہ ’طرزِ معاش‘ کے طور پر کیا جاسکتا ہے۔’کونسلنگ‘ بھی انگریزی میں عام استعمال ہونے والا لفظ ہے، جس کے معنی ’رہنمائی‘ یا ’مشورہ‘ کے ہیں؛ یعنی ’’طرزِ معاش کے بارے میں رہنمائی یا مشورہ‘‘۔

اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں اعلیٰ تعلیم کی جامعات کا جال وسیع تر ہوتا جارہا ہے اور اسکول اور کالج سے فارغ التحصیل طلبا کی اعلیٰ تعلیم تک رسائی آسان ہورہی ہے، لیکن یہ دیکھنا مشکل نہیں ہے کہ ان طالب علموں میں سے صرف کچھ ہی ایسے ہوتے ہیں، جن کا انتخاب کردہ شعبہ واقعی ان کا پسندیدہ شعبہ بھی ہوتا ہے، نتیجتاً وہ کبھی بھی اس شعبے میں اس بلند معیار کی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرپاتے، جو اس شعبے کا تقاضا ہوتا ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ’کیریئر کونسلنگ‘ اہمیت اختیار کرجاتی ہے۔

کیریئر کونسلنگ کیوں ضروری ہے؟

کیریئر کونسلنگ کی ضرورت

موجودہ دور میں تعلیم کا بنیادی مقصد نوجوانوں کو آسان طریقے سے روزگار کے قابل بنانا ہے کیونکہ فرد سے افراد، افراد سے خاندان، اور خاندانوں سے قوم وجود میں آتی ہے۔ فرد جو معاشرہ کی بنیادی اکائی ہے، جب تک وہ خوشحال نہیں ہوگا، کوئی بھی قوم اور ملک خوشحال نہیں بن سکتا۔ ایک منظم نظام کی عدم موجودگی میں ایک طالب علم کسی کے کہنے پر، کسی سے سُن کر یا کسی کو دیکھ کر شعبۂ زندگی چُن لیتا ہے اور آدھی زندگی گزارنے کے بعد اسے ادراک ہوتا ہے کہ وہ کوئی اور کام اس سے بہتر طور پر کرسکتا تھا۔ 

اکثر پاکستانی والدین اور بڑے بہن بھائیوں میں یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ وہ اپنے بہن بھائیوں، بھتیجے بھتیجیوں اور بھانجے بھانجیوں کو ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، اکاؤنٹنٹ وغیرہ بنانا چاہتے ہیں۔ اس عمل میں وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ معاشی اور معاشرتی کامیابی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک انسان کو اسی شعبے میں جانے دیا جائے، جس کی اس کے دل میں لگن ہو اور اس کی صلاحیتیں اور رجحان اس شعبے کے ساتھ مطابقت رکھتی ہوں۔

دلچسپیاں، خصوصیات اور رجحان جاننے کے لیے کسی بھی طالب علم سے چند ایک آسان سوال پوچھ کر اس کی مدد کی جاسکتی ہے:

(1) آپ کو ریاضی (Maths) میں زیادہ دلچسپی ہے یا بائیولوجی میں؟ اگر کسی کی پسند ریاضی ہے تو یہ نوجوان ایسے شعبے میں زیادہ کامیاب ہوسکتا ہے، جس میں حساب کتاب کا واسطہ زیادہ ہو۔ بائیولوجی پسند کرنے والے طلبہ و طالبات ایسے کام زیادہ بہترکرسکتے ہیں، جن میں تحقیق وغیرہ شامل ہو۔ ہالینڈ میں ریسرچرز نے برسوں کی تحقیق کے بعد شعبۂ زندگی کے انتخاب کے لیے ایک ماڈل تیار کیا ہے جوکہ RAISE ماڈل کے نام سے جانا جاتا ہے۔

RAISE ماڈل

1- حقیقت پسند (Realist)، 2 – فنکار (Artist)، 3- محقق (Investigative)، 4- سماجی/عمرانی (Social)، -5مہم جو (Enterprising)

حقیقت پسند: یہ عام طور پر وہ لوگ ہوتے ہیں جو خود اپنے ہاتھ سے کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ عملی ذہن کے مالک ہوتے ہیں۔ یہ کشادہ ماحول میں رہنا پسند کرتے ہیں، جیسے کھیل، سیاحت، مشین آپریٹر، زراعت وغیرہ۔

فنکار: حساس اور نفیس طبع انسان قدرتی طور پر فنکارانہ صلاحیتوں سے نوازے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انوکھے خیالات کو جنم دیتے ہیں۔ فکری صلاحیتوں سے مالا مال ہوتے ہیں، جیسے لکھاری، فنونِ لطیفہ، میڈیا، کمپیوٹر ڈیزائننگ وغیرہ۔

محقق: یہ معاملہ فہم ہوتے ہیں۔ تحقیق و تلاش کو بہت زیادہ پسند کرتے ہیں، جیسے قانون، ریسرچ، انجینئرنگ، میڈیکل سائنس، کمپیوٹر انجینئرنگ، بائیولوجی وغیرہ۔

سماجی: دوسروں کی مدد کرنا اور توجہ کا طالب ہونا، سماجی شخصیت کی علامت ہے۔ اچھی گفتگو ان کا خاصا ہوتی ہے۔ یہ معلومات کا تبادلہ کرنا، شعور اجاگر کرنا، بھلائی کے کام کرنا، تعلیم و تربیت، نرسنگ، فزیو تھراپی، کونسلنگ، سوشل ورکر، مذہبی رہنما، سیاست، شعبۂ افرادی قوت میں کامیاب رہتے ہیں۔

مہم جو: یہ کاروباری، پُراعتماد اور لفاظی میں مہارت رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں جو دوسروں کو متاثر کرنے کی لگن رکھتے ہیں۔ یہ لوگ نتائج دینے والے، دوسروں سے کام لینے والے اور دولت و شہرت کے طالب ہوتے ہیں۔ ان میں ہمت، حوصلہ اور جرأت واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے اور ان کے لیے کاروبار، تجارت، معاشیات، مارکیٹنگ، سیاست اور پروجیکٹ مینجمنٹ جیسے کام بہترین رہتے ہیں۔

اگر آپ کا شمار بھی ایسے نوجوانوں میں ہوتا ہے، جو عملی زندگی میں پیچیدگیوں کا شکار ہیں یا عملی زندگی کا آغاز کرنے والے ہیں تو آپ کو مثبت اندازِ فکر اپنانے کی ضرورت ہے۔ آپ کی صلاحیتیں اور واضح مقصد کے حصول کی خواہش، آپ کی زندگی کے عملی سفر کو پُرلطف اور آسان بناسکتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں