فون ٹیپنگ کیس میں رپورٹس یا قانون میں دلچسپی نہیں، نتائج چاہئیں: جسٹس امین الدین

سپریم کورٹ میں فون ٹیپنگ سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے کی۔

دورانِ سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا فون ٹیپنگ سے متعلق کوئی قانون سازی ہوئی؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ 2013ء سے قانون موجود ہے، قانون کے مطابق آئی ایس آئی اور آئی بی نوٹیفائیڈ ہیں، قانون میں فون ٹیپنگ کا طریقہ کار ہے، عدالتی نگرانی بھی قانون میں ہے۔

فون ٹیپنگ، حکمنامہ غیر موثر، 29 مئی اور 25 جون کا حکم اختیار سے تجاوز، اسلام آباد ہائیکورٹ کو از خودنوٹس کا اختیار نہیں، سپریم کورٹ

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ قانون کے مطابق تو فون ٹیپنگ کے لیے صرف جج اجازت دے سکتا ہے، کیا کسی جج کو اس مقصد کے لیے نوٹیفائی کیا گیا ہے؟

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ فون ٹیپنگ کا قانون مبہم ہے۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ہمیں رپورٹس یا قانون میں دلچسپی نہیں، نتائج چاہیے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ جج کی نامزدگی سے متعلق مجھے علم نہیں۔

جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ اس مقدمے کا اثر بہت سے زیرِ التواء مقدمات پر بھی ہو گا، یہ معاملہ چیف جسٹس کے چیمبر سے شروع ہوا، چیف جسٹس کہاں جائیں گے؟

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ قانون ہر کسی کو ہر فون ٹیپنگ کی اجازت نہیں دیتا۔

اے او آر نے کہا کہ اس مقدمے میں درخواست گزار سے رابطہ نہیں ہو رہا، درخواست گزار کے وکیل بھی گزشتہ سال فوت ہو چکے ہیں۔

عدالت نے کیس پر ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔

اپنا تبصرہ لکھیں