پیکا ترمیمی بل، تحفظات اور میڈیا کرائسز

تحریر: غلام فاطمہ اعوان
fatimaawan115@gmail.com

موجودہ وفاقی حکومت کی جانب سے پیش کردہ پیکا (دی پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ) ترمیمی بل 2025 ایوان میں بنا کسی بحث کے قومی اسمبلی اور سینیٹ کی متعلقہ قائمہ کمیٹیوں ، پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد صدر مملکت کی جانب سے توثیق کردی گئی اور سارا پراسیس اتنا سہل گویا عجلت میں ہوا کہ کسی بھی اسٹیک ہولڈر سے مشاورت نہیں کی گئی بلکہ اس بل پر پارلیمنٹ میں بحث و مباحثہ بھی ناں ہوا۔ ایوانوں میں بیٹھے ہمارے نمائندگان کو کسی بل کی منظوری یا اس میں ترمیم کرنے میں مہینوں لگ جاتے ہیں مگر اس ترمیمی بل میں پھرتیاں حیران کن طور پر تشویشناک ہیں کیونکہ صحافتی تنظیموں سمیت دیگر تمام اسٹیک ہولڈرز تحفظات رکھتے ہیں۔ نیز ایک سیاسی جماعت جو دعویٰ کرتی ہے کہ یہ ترمیمی بل بالخصوص أن کی سیاسی سرگرمیوں پر بھی مستقل پابندی کا ذریعہ ثابت ہوگا ، دلچسپ امر یہ ہے کہ أسی سیاسی جماعت کے سینیٹرز کی معاونت سے یہ ترمیمی بل سینیٹ میں بھی منظور ہوگیا۔

2016 میں ن-لیگ کے دور حکومت میں پیکا ایکٹ بظاہر الکٹرانک میڈیا پر ہونے والے جرائم کی روک تھام کے لیے معرضِ وجود میں آیا صحافتی تنظیموں کے احتجاج اور اس کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو حکومت نے درخورِ اعتنا نہ جانا، شروع سے متنازعہ یہ قانون فروری 2022 اور 2023 کی اہم ترامیم کے ساتھ اب تک سات مرتبہ تبدیل ہو چکا ہے، ہر حکومت اپنی مجبوریوں اور ضروریات کے مطابق اس میں رد و بدل کرتی رہی ہے۔
تاہم حالیہ ترامیم کے بعد ۔۔ حکومتی نمائندگی کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات جناب عطاء تارڑ کا موقف ہے کہ یہ بل فیک نیوز کی روک تھام کے لیے لایا گیا ہے، اگر یہی نیک مقصد کار فرما ہے تو اس بل کو پارلیمنٹ میں بحث و مباحثہ کی مطلوبہ مدت کیوں نہیں دی گئی ؟ پیکا کی کم و بیش 50 شقوں میں ترامیم کی گئیں ہر ترمیم کو زیر بحث کیوں نہ لایا گیا ؟ ایسی بھی کیا جلدبازی تھی ؟ یہ اور بہت سے ایسے سوالات جن سے ابہام پیدا ہوا ہے۔ علاوہ ازیں ، جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے ایوانوں میں عوامی نمائندگان، حکومت و حکومتی وزراء کی جمہوریت پسندی کا عملی مظاہرہ نوٹ فرمالیں کہ تمام تحفظات ، عوامی رائے ،احتجاج ، مظاہروں کے باوجود یہ بل قانون ساز اداروں سے منظور ہو گیا۔

پیکا کی ترامیم پر فرداً فرداً روشنی ڈالنے سے قبل ایک عالمی مسئلہ “فیک نیوز” کے بارے میں آپ کو آگاہ کیا جانا ضروری ہے، قارئین کرام ! فیک نیوز، غلط خبر سے مختلف ہوتی ہے ، غلط خبر کی تصحیح بھی ہو جاتی ہے اور تردید بھی ہوتی ہے اور اس پر معذرت بھی کرلی جاتی ہے لیکن فیک نیوز دھڑلے سے دی جاتی ہے، حقائق کو مسخ کرنے یا کسی فرد یا ادارے کی شہرت/ ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے اور اسے عام خبر کے طور پر شیئر کیا جاتا ہے نیز جو حقائق پر مبنی نہ ہو وہ پروپیگنڈا کہلاتا ہے خبر نہیں۔
فیک نیوز جنگل میں آگ کی طرح پھیلتی ہے، من گھڑت اور حقائق کے برعکس ایسا مواد جس کے ناں تو ذرائع واضع ہوں اور نہ ہی اس کو ثابت کرنے کے لیے کسی قسم کا ثبوت موجود ہو نیز فیک نیوز کو بلیک میلنگ یا مالی مفادات کے حصول کے لیے استعمال یا کسی فرد یا ادارے کا امیج خراب کرنے کے لیے جرائم پیشہ افراد و بہروپئے صحافت کا سہارا لیتے ہیں۔ شعبہ صحافت ایک مقدس پیشہ ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں غیر صحافتی افراد کی جانب سے صحافتی تنظیموں کا لیبل لگا کر “زرد صحافت” کی جارہی ہے جس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے، یہ تنظیمیں عالمی صحافتی تنظیموں بالخصوص انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس سے الحاق شدہ بھی نہیں مگر صحافت کے لبادے میں پروفیشنل جرنلسٹس و شعبہ صحافت کی تباہی کا سبب بن سکتی ہیں۔ تمام ذمہ دار صحافی اور ان کی نمائندہ تنظیمیں بھی چاہتے ہیں کہ فیک نیوز اور زرد صحافت کا خاتمہ ہو ل، اس ضمن میں اپنے تئیں کوششیں اور حکومتوں کے ساتھ تعاون بھی کیا جاتا ہے لیکن موجودہ حکومت کی جانب سے پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 پر صحافیوں ، صحافتی تنظیموں ، انسانی حقوق کی تنظیموں ، وکلاء تنظیموں ، ڈیجیٹل رائٹس کی محافظ تنظیموں سمیت دیگر تمام اسٹیک ہولڈرز کے کچھ تحفظات ہیں جیسا کہ ۔۔۔
ترامیم کے بعد صحافیوں کو ’’فیک نیوز‘‘ کا الزام عائد کر کے 3سال قید اور 20لاکھ روپے جرمانہ کیا جا سکتا ہے اگر جرم ثابت نہ ہو، گرفتار ہونے والے صحافی کو اذیت اٹھانا پڑے گی اسکا کوئی ذمہ دار نہیں ریگولیٹری اتھارٹی کے ارکان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی انہیں پیکا ایکٹ میں تحفظ دیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء تارڑ کا موقف ہے ’’یہ قانون صحافیوں کے خلاف استعمال نہیں ہو گا‘‘ لیکن نئے قانون کے نفاذ کے بعد حکومت کے خلاف کسی خبر پر تجزیہ کرنے والوں کو بھی گرفت میں لایا جا سکے گا پیکا ایکٹ میں فوری ترمیم کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ حکومت سوشل میڈیا انفلوئنسرز اور یوٹیوبرز کو ریگولیٹ کرنا چاہتی ہے لیکن پیکا ایکٹ میں ترامیم کرتے وقت الیکٹرانک میڈیا پر بھی ہاتھ ڈالنے کی شقیں شامل کر دی گئی ہیں۔ صحافتی تنظیموں کو اعتماد میں نہ لینے سے ملک بھر میں ایجی ٹیشن کا ماحول پیدا ہو گیا ہے پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں حکومت کے خیال میں ایسا کانٹینٹ جو نظریہ پاکستان کے خلاف ہو، جو عام لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے کیلئے اشتعال دلائے یا عوام، افراد، گروہوں، کمیونٹیز، سرکاری ملازمین اور اداروں کو خوف میں مبتلا کرے وہ مواد غیر قانونی ہے اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار ریگولیٹری اتھارٹی کے سرکاری ارکا ن کو دے دیا گیا ہے جبکہ اس میں صحافتی نمائندگان موجود ہی نہیں تو غیر جانبداری پر سوال اٹھتا ہے نیز وفاقی حکومت کے اختیارات وسیع کر دیے گئے ہیں جو ریگولیٹری اتھارٹی بنائی، ٹربیونل بنایا ہے اور جو کمیٹی بنائی ہے اس میں حکومت کی براہ راست مداخلت ہو گی۔

اس بِل کے تحت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو اتھارٹی سے رجسٹر کروانا لازمی قرار دیا گیا ہے جبکہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو عارضی یا مستقل طور پر بھی بند کیا جا سکے گا، اس جیسی دیگر شقوں سے “عام آدمی” بھی متاثر ہو گا۔ قانون میں ترمیم کی گئی ہےکہ’’غلط اور جھوٹی خبر سے متاثرہ شخص کو اتھارٹی کو خبر ہٹانے یا یا بلاک کرنے کیلئے 24گھنٹے سے قبل درخواست دینا لازمی ہو گا۔ اتھارٹی چیئرمین اور دیگر ارکان کی تعیناتی کا اختیار حکومت کے پاس ہو گا ان کی مدت 5سال کیلئے ہو گی تاہم ایکسٹینشن نہیں دی جا سکے گی، اتھارٹی کے مالی سال کے آخر میں پارلیمنٹ میں سالانہ رپورٹ پیش کی جائے گی پالیسی میٹرز وفاقی حکومت اتھارٹی کو ہدایات جاری کر سکے گی۔ دلچسپ امر یہ ہے قانون میں کی گئی ترامیم کے مطابق نیک نیتی سے کئے گئے اقدامات اور فیصلوں پر اتھارٹی حکومت یا کسی شخص پر مقدمہ یا کوئی کارروائی نہیں کی جا سکے گی۔ اس طرح کسی شخص کے خلاف کی گئی کارروائی پر اتھارٹی کے ارکان کا احتساب نہیں کیا جا سکے گا اس نئے قانون کے تحت سول میڈیا کمپلینٹ کونسل قائم کی جائے گی جو چیئرمین اور 4ارکان پر مشتمل ہو گی جہاں عام لوگوں، تنظیموں اور شخصیات کی شکایات وصول کی جائیں گی۔ وفاقی حکومت ترمیم شدہ قانون کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل قائم کرئے گی ریگو لیٹری اتھارٹی کے فیصلے سے متاثرہ شخص ٹریبونل میں درخواست دے سکے گا جبکہ ٹریبونل کے فیصلے سے متاثرہ شخص 60دن میں سپریم کورٹ میں اپیل کر سکے گا ٹریبونل تمام کیسز کے فیصلے 90دن میں کرے گا۔ سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹریبونل کا چیئرمین ایسا شخص ہو گا جو ہائی کورٹ کا جج رہا ہو یا ہائی کورٹ کا جج بننے کا اہل ہو ایک ممبر جرنلزم میں بیچلر ڈگری یافتہ ہو اور 12سال کا پیشہ ورانہ تجربہ رکھتا ہو، دوسرا ممبر سافٹ وئیر انجینئر ہو گا اور سوشل میڈیا ایکسپرٹ ہو گا چیئرمین اور ارکان کی نامزدگی 3سال کیلئے کی جائے گی ترامیم شدہ قانون کے تحت نیشنل سائبر کرائم ایجنسی قائم کی جائے گی جو اس بات کی انویسٹی گیشن اور پراسیکیوشن کرے گی اس ایجنسی کے قیام کے بعد ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ تحلیل کر دیا جائے گا، اس ونگ میں کام کرنے والے تمام اہلکار کیسز، انکوائریز، تحقیقات، اثاثے، پراپرٹیز ِ بجٹ حقوق اور استحقاق سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی کو ٹرانسفر کر دئیے جائیں گے۔ وفاقی حکومت اس قانون کے تحت ایک یا ایک سے زیادہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیمیں بنا سکے گی جو تحقیقات کے لئے کسی بھی انویسٹی گیشن ایجنسی سے معاونت لے سکیں گی۔ حکومت نے سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی میں صحافیوں کو نمائندگی دینے کا فیصلہ کیا ہے لیکن یہ نمائندگی موثر بنانے کی ضرورت ہے ترمیمی بل کے مطابق فیک نیوز پر پیکا ایکٹ کے تحت3 سال قید اور 20 لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں ایک ساتھ دی جاسکیں گی۔ غیرقانونی مواد کی تعریف میں اسلام مخالف، ملکی سلامتی یا دفاع کے خلاف مواد اور جعلی یا جھوٹی رپورٹس شامل ہوں گی، غیرقانونی مواد میں آئینی اداروں بشمول عدلیہ یا مسلح افواج کے خلاف مواد شامل ہو گا۔ غیرقانونی مواد کی تعریف میں امن عامہ، غیر شائستگی، توہین عدالت، غیر اخلاقی مواد بھی شامل ہو گا اور غیرقانونی مواد میں کسی جرم پر اکسانا بھی شامل ہو گا۔ وزراء نے پیکا ایکٹ کی قانون سازی پر جلد بازی کا اعتراف کرتے ہوئے بات چیت کاعندیہ دیا ہے تاہم حکومت نے صحافتی تنظیموں سے ڈائیلاگ شروع نہیں کیا جس کی وجہ سے ایجی ٹیشن جاری ہے سینیٹر عرفان صدیقی نے بھی اعتراف کیا ہے کہ حکومت نے پیکا قانون سازی میں جلد بازی کی ہے اور اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت نہیں کی۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ کا کہنا ہے کہ قوانین میں بہتری کی ہمیشہ گنجائش موجود رہتی ہے، ابھی پیکا ایکٹ کے رولز بننے ہیں، اس میں مشاورت اور بات چیت کی بہت گنجائش موجود ہے۔ وہ پیکا ایکٹ کی متنازع شقوں پر بات کرنے کو تیار ہیں۔ سوشل میڈیا پروٹیکشن اتھارٹی میں نجی شعبے سے نامزدگیاں کی جائیں گی، اتھارٹی میں پریس کلب یا صحافتی تنظیموں سے منسلک صحافیوں کو شامل کیا جائے گا۔

متاثرہ افراد کی اشک شوئی کیلئے قانون کو حالات کے مطابق ڈھالنا وقت کی ضرورت ہے لیکن قانون بنانے والوں نے سوشل میڈیا کے کرداروں پر آہنی ہاتھ ڈالنے کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیا کو بھی نکیل ڈالنے کی شعوری کوشش کی ہے۔ صحافتی تنظیموں کی طرف سے جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے وہ بڑی حد تک حقائق پر مبنی ہیں اس قانون کی آڑ لے کر الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ افرادکی زندگی اجیرن بنائی جا سکتی ہے۔ فیک نیوز کی تشریح اور اس بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کیلئے صحافتی تنظیموں کی موثر نمائندگی ضروری ہے پیکا ایکٹ کے تحت الزام کو قابل ضمانت قرار دیا جائے ٹریبونل کے فیصلے کو چیلنج کرنے کیلئے ہائی کورٹ میں اپیل کا حق بھی ملنا چاہیے۔

معزز قارئین! اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کیا جانا اور چیک اینڈ بیلنس ناگزیر ہے۔ ہم میں سے اکثریت سوشل میڈیا صارفین ہیں ، آئے روز ہم مشاہدہ کرتے ہیں یا ہماری نظروں سے ایسا مواد گزرتا ہے جو کسی طور بھی ہماری مذہبی، معاشرتی اور اخلاقی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتا، وی-لاگرز/ سوشل میڈیا انفلوئنسرز کی جانب سے پیش کردہ مواد اخلاقیات سے گرہ ہوا ہوتا ہے گویا بندر کے ہاتھ میں ماچس تھما دی جائے تو پورے جنگل میں آگ لگا سکتا ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ اچھا کانٹینٹ یعنی quality content فراہم کرنے والے آٹے میں نمک کے برابر ہیں کیونکہ مین اسٹریم میڈیا ہو یا سوشل میڈیا پلیٹ فارم، منفی مواد یا فیک نیوز کی تشہیر منٹوں میں ہوتی ہے (جس کی وجہ امیچور صارفین/ آڈینس بھی ہیں) یعنی ان کا حال ماضی کے شام کے اخبارات جیسا ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے فروخت ہوجایا کرتے تھے کیونکہ ان میں موجود خبریں سنسنی خیزی ، پروپیگنڈا اور جھوٹ پر پابندی ہوتی تھی یعنی أس دور میں “Yellow Journalism” کی نمایاں مثال تھی، یہی صورتحال جدید دور میں سوشل میڈیا کی صورت میں موجود ہے لیکن جب حالات گھمبیر صورتحال اختیار کر لیں تو أن کی درستگی و اصلاح کے لیے آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ آئین سے تجاوز کر کے اور طاقت و اختیارات کے بے دریغ استعمال سے افراتفری و بحرانی کیفیت پیدا کر کے شہریوں کی زندگی اجیرن کرنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2015 بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کے تحت جانے والی حالیہ ترامیم آئین کے آرٹیکل 19 کی سرعام خلاف ورزی اور بنیادی انسانی و شہری حقوق کی پامالی ہے، تمام اسٹیک ہولڈرز کے تحفظات دور کرنا ناگزیر ہے نیز آزادی اظہار رائے محض صحافیوں کا مسئلہ نہیں بلکہ اپنی بات کہنے ، بولنے اور اپنی رائے دینا سب کا جمہوری، شہری اور بنیادی انسانی حق ہے اور میڈیا ہر خاص و عام کی آواز بنتا ہے۔ صحافتی تنظیمیں ، انسانی حقوق کی تنظیمیں، وکلاء تنظیمیں ، ڈیجیٹل میڈیا رائیٹس کی محافظ تنظیمیں ، تمام اسٹیک ہولڈرز یک زبان ہیں اور پیکا ترمیمی بل کو “کالا قانون” قرار دیتے ہوئے مطالبہ کررہے ہیں کہ سب کو اعتماد میں لیا جائے اور اس میں موجود تحفظات دور کیے جائیں کیونکہ موجودہ صورتحال بظاہر لوگوں پر قدغنیں عائد کر کے أن کی آوازیں دبانے اور اس قانون کا خاص مقاصد ، سیاسی مفادات کے حصول کے لیے ناجائز استعمال نیز آئین کے آرٹیکل 19 کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ صحافتی تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں کیونکہ خدشہ ہے اس قانون کا غلط استعمال کیا جاسکتا ہے اور اس کی آڑ میں فکر رکھنے والے افراد و اہلِ دانش و اہلِ قلم پر ریاستی جبر کا شکار ہوں گے یعنی موجودہ حالات میں سوچ و فکر رکھنے والوں کے لیے پہلے ہی سازگار نہیں تو اس قانون پر عمل درآمد کے مکمل زباں بندی ہوگی۔ اگر ایسی صورتحال ہوئی تو صحافی اور قلم کار صرف موسم کا حال ہی بتا سکیں گے۔ کیونکہ جو افراتفری اس وقت جاری ہے اس سے بحرانی صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔

فیک نیوز اور زرد صحافت کے سدباب کے لیے اس وقت ملک کی واحد (فنکشنل) میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی ، پیمرا کی جانب سے میڈیا ورکرز کو پیمرا لاز سے متعلق ورکشاپس کا انعقاد اور جدید خطوط پر تربیت دینا وقت کا تقاضا ہے۔ انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس سے الحاق شدہ ملک کی سب سے بڑی صحافتی تنظیم پی ایف یو جے کو بھی اس سلسلے میں لیڈ کرنا ہوگا کہ وہ عالمی معیار صحافت کو سامنے رکھتے ہوئے میڈیا ورکرز بالخصوص رپورٹرز کے ٹریننگ مختلف سیشنز کا انعقاد کریں اور پی ایف یو جے حکومتی نمائندگان ، میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی ، میڈیا ورکرز کے ساتھ مل کر از سر نو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ایک متفقہ “صحافتی ضابطہ اخلاق” مرتب اور نافذ کریں نیز عدلیہ کے توسط سے پریس کلب انتظامیہ، صحافیوں کی پریس کلبز و دیگر فہرستوں میں میرٹ پر اسکروٹنی کا عمل جلد از جلد مکمل کیا جائے تاکہ ذمہ دار ، پروفیشنل اور ایجنڈا سے پاک صحافت کو فروغ اور شعبہ صحافت کا تقدس بحال ہوسکے

اپنا تبصرہ لکھیں