تحریر: غلام فاطمہ اعوان
fatimaawan115@gmail.com
معاشرے میں منفی رویے اس قدر پختہ ہیں کہ ذرائع ابلاغ پر محض منفی خبروں و موضوعات کے اثرات نمایاں ہیں،عوام کی تعلیم و تربیت کا ذمہ جو میڈیا کے ذمے ہے وہ آج کے ریٹنگ و ٹرینڈنگ کے دور میں ماند پڑ گیا ہے۔ بہرحال ، اگر بات کی جائے عام عوام کی تو لوگوں کے ساتھ مفاد پرست سیاستدانوں ، کرپٹ نظام کے سہولت کاروں و دیگر اس ملک کے عوام کے مجرم ہیں بلاشبہ ، ناانصافی کا اندازہ لگائیے کہ کھانے پینے کی اعلیٰ کوالٹی اشیاء بھی رعایا کی پہنچ سے بہت دور ہیں وہ صرف طبقہ اشرافیہ کے لیے وقف ہیں ، قوت سے زیادہ ٹیکسز اور مزید ٹیکسز سے عام آدمی کا خون نچوڑ کر أسے تھرڈ کلاس سٹیزن والا ٹریٹمنٹ دینے کا سلسلہ بھی بس ہمارے ہاں ہی ہوتا ہے ۔ مہذب اور ترقی یافتہ ممالک میں کم از کم لوگوں کے لیے یہ تخصیص نہیں بلکہ ہماری اشرافیہ بھی بیرون ملک جا کر تہذیب و مساوات کا عملی مظاہرہ کرتے ہیں لہٰذا یہ ساری بدتہذیبیاں ، عدم مساوات و ناانصافیاں اپنے ملک میں کرتے ہیں کیونکہ یہاں نظام انصاف معززین کی حیات کو مزید سہل بنانے کے لیے ہے۔ تاہم جہاں جنتا نے کئی ظلم و جبر اور زیادتیاں برداشت کی ہیں وہیں وہ خود کے ساتھ بھی ایک ظلم کررہے ہیں ، اور وہ ہے اپنی صحت کے ساتھ کھلواڑ کر کے ۔۔۔ یہ امر واضح ہے کہ ہمارے ہاں صحت ، کسی کے لیے ترجیح نہیں رہی لوگوں کو ہم اس حوالے سے کہیں گے تو زباں زد عام ہے کہ مہنگائی اس قدر ہے کہ صحت کا خیال کیسے رکھیں، میں تسلیم کرتی ہوں کہ اشیائے خوردونوش عام آدمی کی پہنچ سے دور ہیں اور لوگوں کی آمدن و اخراجات میں زمین آسمان کا فرق بھی ۔۔۔ لیکن جو لوگ مڈل کلاس یا اپر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں ، یہاں میں أن سے مخاطب ہوں۔۔
کسی ریستوران سے ایک وقت کے پائے ، نہاری خریدنے یا تازہ پھل خریدنے میں سے لوگ اکثر پائے نہاری خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں، پروٹین سالاد کھانے سے زیادہ سموسہ چاٹ یا ایسی ہی کسی چیز کو سبقت دی جاتی ہے اسی طرح گھر پر تیار کردہ دال چاول یا اسٹیمڈ فش سے زیادہ ترجیح بازار کے (کروڈ آئل نما) تیل میں فرائی کی ہوئی مچھلی کو دی جاتی ہے یعنی آپ افورڈ کرسکتے ہیں لیکن آپ کا انتخاب ہمیشہ unhealthy اشیاء/ خوراک ہوگی ۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ صحت اور طب کے حوالے سے عالمی شہرت یافتہ جریدے “دی لینسٹ” نے کچھ عرصہ قبل ایک رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ ہماری روزمرہ خوراک تمباکو نوشی سے زیادہ مہلک ہے اور یہی خوراک دنیا بھر میں ہونے والی ہر پانچ ہلاکتوں میں سے ایک ہلاکت کا باعث بن رہی ہے، سال 2017 کی ایک رپورٹ کے مطابق لگ بھگ 11 ملین افراد غریب اور ترقی پذیر ممالک میں چینی اور نمک کے زیادہ استعمال ہونے والی خوراک کھانے سے ہلاک ہوئے۔
کچھ روز قبل ، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں واقع ایک کافی شاپ میں دوستوں کے ہمراہ کافی پیتے ہوئے نظر سے ایک خبر گزری کہ متحدہ عرب امارات کے سکولز کی کینٹین میں جنک فوڈ کی فروخت پر سختی سے پابندی عائد کر دی گئی ہے، یہ خبر دوستوں کے ساتھ شیئر کی تو اس پر بحث و مباحثہ کا آغاز ہوگیا، ایک دوست نے اس پر شدید تنقید کی جس کا لب لباب تھا کہ کوئی جو بھی یا کیا کھانا چاہتا ہے ، ہر فرد کی اپنی چوائس ہونی چاہیے تاہم دیگر احباب کسی حد تک اس حق میں تھے کہ متحدہ عرب امارات میں سکولز میں جنک فوڈ پر عائد کی جانے والی پابندی کا فیصلہ درست ہے۔ اسی بحث کے دوران ہمارے زمانہ طالبعلمی کے اواخر سال بھی زیرِ گفتگو آئے جب غالباً 2020 میں اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے وفاقی دارالحکومت کے تمام تعلیمی اداروں میں سافٹ ڈرنکس کی فروخت پر پابندی عائد کر دی گئی اور متاثرین میں ہم بھی شامل تھے بالخصوص وہی دوست جس کا مذکورہ بالا سطور میں ذکر ہوا ، پابندی کے اطلاق کے اوائل دنوں میں تو ہم اپنی سافٹ ڈرنکس ساتھ لے کر جاتے رہے کیونکہ سافٹ ڈرنک کے ساتھ کھانا کھانے کی بری عادت تھی لیکن کچھ ہی دن کے بعد کیفے ٹیریا پر فروخت ہونے والے تازہ پھلوں کے جوس کی عادت ہو گئی اور یوں ہم نے محسوس کیا کہ یہ ایک قابل عمل اور بہترین فیصلہ تھا۔ مادر علمی کو کچھ ہی برسوں کے بعد وزٹ کیا تو دیکھا کہ انتظامی افسران کے تبادلوں کے ساتھ فیصلوں پر عملدرآمد بھی روک دیا گیا، وہی سافٹ ڈرنکس فروخت بھی ہورہی ہیں اور طلبہ و طالبات استعمال بھی کررہے ہیں۔
قارئین! متحدہ عرب امارات میں سکولوں میں جنک فوڈ پر پابندی عائد ہونے کے بعد مقامی اخبار کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے بچوں کے والدین کی اکثریت نے اس کو سراہا اور والدین نے بتایا کہ وہ اس نئی قانون سازی سے پہلے ہی اپنے بچوں کے ہمراہ صحت بخش کھانا پیک کر کے بھیج رہے ہیں جبکہ چند والدین کا کہنا تھا کہ “بچے ضد کرتے تھے کہ ان کو کینٹین سے جنک فوڈ خرید کر کھانا ہے لہٰذا وہ گھر سے کھانا یا پھل اپنے ہمراہ لانے سے منع کر دیتے تھے لیکن یہ خوش آئند ہے کہ اس فیصلے کے بعد ان کو کینٹین سے ممنوعہ اور غیر صحت مند کھانا نہیں میسر ہو گا۔” واضح رہے کہ والدین کے اس ردعمل کے پیچھے اماراتی حکومت و انتظامیہ کی مسلسل کوششیں شامل ہیں جیسا کہ پہلی بار 2011 میں ڈی ایچ اے (دوبئی ہیلتھ اتھارٹی) اور دبئی میونسپلٹی نے سکولز کی کینٹین میں جنک فوڈ آئٹمز کی فروخت پر پابندی عائد کی گئی، فروخت کیے جانے والے کھانوں کا معائنہ اور کیفے ٹیریا انتظامیہ کی جانب سے والدین کو کھانے میں استعمال ہونے والے اجزاء سے آگاہ رکھنے کے حوالے سے قانون سازی کی گئی۔ اسی ضمن میں 2019 میں متحدہ عرب امارات کے سکولز میں 9 سے زائد اشیاء مثلاً چاکلیٹس ، سافٹ ڈرنکس ، فرینچ فرائز ، پراسیسڈ میٹ سے تیار کردہ اشیاء ،نوڈلز ، سویٹس/کینڈیز ، آلو یا کارن چپس ، کاربوریٹڈ ڈرنکس (انرجی ڈرنکس ، فلیورڈ واٹر ، جوس ، اسکیمو ڈرنکس وغیرہ) اور ڈونٹس/ کریم کیکس کی فروخت پر سختی سے پابندی عائد کی گئی تھی اور حال ہی میں اہم پیش رفت جنوری 2025 میں سامنے آئی ہے جس کے تحت نئی قانون سازی کرتے ہوئے سکولز میں تمام اقسام کے جنک/ فاسٹ فوڈ کی فروخت پر مکمل طور پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
حاصلِ گفتگو یہ ہے کہ وقتاً فوقتاً اور ایک تسلسل سے جاری پابندیوں، مستقل مزاجی اور متوازن/ صحت افزا غذا کا استعمال کرنے کی آگہی سے لوگوں میں شعور اجاگر ہوا ہے اور اب کی بار والدین اور بچوں کے مکمل تعاون سے یو-اے-ای کی حکومت اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
معزز قارئین ۔۔! صرف متحدہ عرب امارات ہی نہیں بلکہ یورپی یونین کے بہت سے ممالک ، ریاستہائے متحدہ امریکہ (کی مختلف ریاستوں) ، کینیڈا ، جاپان سمیت دیگر ممالک میں گزشتہ کئی برسوں سے سکولوں میں جنک فوڈ کی فروخت پر پابندی عائد کر رکھی ہے صرف یہی نہیں بلکہ وہاں ایک طویل بحث کے بعد أن تمام فاسٹ فوڈ بنانے والی کمپنیز کے اشتہارات کی نشر و اشاعت پر پابندی بھی عائد ہے جن کی مطلوبہ آڈینس چھوٹے بچے ہیں بالخصوص کارٹون چینلز پر۔ ایڈورٹائزمنٹ پر پابندی و دیگر اقدامات سے بلاشبہ مالی نقصان ہوتا ہے مگر ایسے فیصلے قوموں اور آئندہ نسلوں کے وسیع تر مفاد میں بہتری سرمایہ کاری ثابت ہوتے ہیں۔
یہ سب لکھتے ہوئے میری دیرینہ خواہش ہے کہ وطن عزیز میں ہونے والے “سخت فیصلوں” میں سے کچھ ایسے ہی سخت فیصلے حکومت وقت ، ضلعی انتظامیہ کے افسران بالا و دیگر اربابِ اختیار بھی کریں کیونکہ ہماری آئندہ نسلوں کے لیے اچھی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ أن کی اچھی صحت بھی ہماری ترجیحات میں شامل ہونی چاہییں ۔ نیز والدین بالخصوص ماؤں کو معلومات کے علاوہ عملی طور پر چاہیے کہ وہ اپنا احتساب خود کریں کہ اپنے گھر والوں بالخصوص بچوں کو متوازن اور صحت بخش غذا کھلا رہی ہیں یا نہیں ؟
بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ سب فی الفور درست نہیں ہوگا کیونکہ ہمارے روزمرہ کے کھانوں/ دسترخوان کے Menu میں صحت کبھی ترجیح نہیں رہی محض چٹخارے دار کھانے سبقت لے جاتے ہیں، مفید اور صحت بخش اشیاء نظر انداز ہی رہتے ہیں کیونکہ بچپن سے ہی ہماری eating habits یکسر مختلف ہیں۔ اکثر آپ نے غور کیا ہوگا کہ بچہ جب نرم غذا کھانے کے قابل ہوتا ہے تو اسے سبزی و دیگر ذائقوں سے بہت کم متعارف کروایا جاتا ہے، مائیں تازہ پھل کھلانے کی بجائے پیکٹ کا جوس اور چپس کھلاتی ہیں بعد ازاں سکول کا لنچ باکس بھی بالترتیب نگٹس، سینڈوچز ، نوڈلز ، پاستہ، فرینچ فرائز ، برگرز وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ سکولوں کی canteens میں بھی ایسی ہی اشیاء فروخت ہوتی ہیں۔۔۔ یوں اس طرح یہ سب عوامل مل کر ایک بچے/ فرد کے کھانے پینے کی عادات یا Taste Buds کو تشکیل دیتے ہیں اس طرح سالہاسال کی عادات کے برعکس اچھی و متوازن غذا کے استعمال کا مشورہ دینے والا ہمیں انسان دیوانہ معلوم ہوتا ہے یا اس کی بات سنی ان سنی کر دی جاتی ہے۔ اگر حقائق پر روشنی ڈالیں تو گزشتہ کئی دہائیوں سے بالخصوص 21ویں صدی کے آغاز سے زندگی بسر کرنے کے طور طریقوں، خوراک یا کھانے کی عادات وغیرہ بھی بدل گئی ہیں۔ جہاں جسمانی مشقت کم ہوئی ہے وہیں غیر متوازن غذا، جنک فوڈ اور ہوٹلنگ میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اسی کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہوا وزن، اوسط عمر میں کمی اور نت نئے امراض بھی جنم لے رہے ہیں جس کی جڑ غیر متوازن/ غیر متزلزل معمولات زندگی اور کھانے پینے کے معاملے میں چٹخارے دار خوراک کو ترجیح دینا شامل ہے۔
میں پر امید ہوں کہ تمام والدین بالخصوص مائیں اپنے بچوں کی خوراک میں سے جنک فوڈ کو کم کر کے انھیں صحت بخش غذا کے استعمال کی عادت ڈالیں گی نیز وفاقی و صوبائی حکومت، ہیلتھ کیئر ریگولیٹری اتھارٹی ، وزارت صحت ، سکول انتظامیہ ، ضلعی انتظامیہ کی جانب سے اسکولز میں کاربوریٹڈ ڈرنکس ، جنک فوڈ کی فروخت پر پابندی عائد کی جائے گی نیز پاکستان کی میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی، پیمرا کی جانب سے بچوں کے لیے جنک فوڈ ایڈورٹائزمنٹ بالخصوص کارٹون چینلز پر نشر ہونے والے اشتہارات پر مستقل پابندی عائد ہونی چاہیے نیز ہم سب کو اپنا فرض ادا کرتے ہوئے اپنے حصے کا تعاون اور ذمہ داری ادا کرنی چاہیے-